تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
حضرت مسلم متعدد صفات کے حامل تھے۔ عبدو فیاض ان صفات کمال کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ حسب و نسب، ذاتی خصوصیات، بلند اور اعلٰی کردار، طاقت و بہادری، علم و عمل، زہد و ورع، شہادت و صفتیں ہیں وہ ان کی زندگی کے سنہرے باب ہیں۔ اولاد نجابت و شرافت میں ماں باپ کی شرافت نسب کو بڑا دخل ہے۔ حضرت مسلم کے والدین عرب کے شریف ترین خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد حضرت عقیلؑ کا نام عربی ادب میں آفتاب کی طرح چمکتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان کی مدح و ثناء کی اور یہ دو آیتیں جن معز و محترم شخصیات کی شان میں ہیں ان میں جناب عقیل بھی ہیں (سورۃ حجر کی 14 ویں آیت اور سورۃ انفال کی 10 ویں آیت ملاحظہ فرمائیں)۔ حق مدح ادا کرنا ناممکن ہے۔ نو شیرواں کا عدل، حاتم کی سخاوت، رستم کی بہادری، یوسفؑ کا حسن، نوح کا گریہ، صبر ایوب صدیوں سے زیر بحث ہے اور ثنا گستر یہ محسوس کرتا ہے کہ ہم نے اوصاف جمیلہ اور کردار حمیدہ کا صحیح تعارف نہیں کیا۔
راقم الحروف کی خواہش ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دسماد، حضرت مسلمؑ کے راز و نیاز پر روشنی ڈالی جائے۔ اہل کوفہ کی استدعا کے وقت امام حسینؑ کے اہل بیتؑ میں ایسے افراد موجود تھے جن میں سے کسی ایک کو اپنا نائب بنا کر بھیج سکتے تھے اور مقصد تبلیغ، امر با لمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی ہو جاتی۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے منصب کی اہمیت کو محسوس کیا۔ ان کے گھرانے میں ایسے نوجوان بھی تھے جن سے منافی عصمت کوئی فعل ظہور میں آتے نہیں دیکھا جس کو حکم دیتے۔ چونکہ ان کا تابعی اور ثقہ ہونا مخالف بھی تسلیم کرتا تھا، انھیں کی جانب روانہ کیا۔
آخر امام حسین علیہ السلام نے حضرت علی اکبرؑ یا حضرت عباس علمدارؑ جیسا شجاع کیوں نہیں بھیجا؟ جنگی اصول سے ان کے انتخاب کا کیا راز تھا؟ یہ بھی حسینیت کی اعلٰی سیاست و مصلحت ہے۔ اگر علی اکبرؑ کو بھیج دیتے تو شہزادے کے نام میں علویت کا جوہر موجود تھا۔ علی کے معنی بلند و برتر کے ہیں۔ لفظ میں وہ سطوت و جبروت موجود ہے جس سے تشدد کا پتہ چلتا ہے۔ اگر عباس علمدارؑ کو بھیجتے تو عباسؑ کے معنی شیر درندہ کے ہے۔ ان کی بہادری اور دلیری سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا لوگ سمجھ جاتے ان کے انتخاب میں جلال و قتال کا پہلو و پیغام نمایاں ہوتا۔ لہٰذا عباسؑ کو بھی نہیں بھیجا۔
حضرت مسلمؑ کو اپنا سفیر و نائب بنا کر بھیجا۔ مسلم کے معنی "گردن نہادن" کے ہیں۔ مسلم کے نام پر مظلومیت برستی ہے۔ ان کو بھیجنے کے بعد کوئی نہیں سمجھ سکتا حسینؑ تبلیغ دین کے پردے میں جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ انتخابٍ مسلمؑ سے ظاہر ہے کہ نیابت کے فرائض کو وہ ادا کر رہا ہے جو اپنے نام میں بھی تشدد کی جھلک نہیں رکھتا ہے۔
حضرت مسلمؑ، حضرت علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام کے بھائی عقیلؑ کے صاحبزادے تھے۔ یعنی حسنین کریمین، زینب و اُمّ کلثوم و عباس علمدار علیہم السلام کے چچازاد بھائی و بہنوئی تھے۔ حضرت مسلمؑ حضرت علی علیہ السلام و حضرت ام البنینؑ کے داماد تھے۔ شیر خدا حضرت علیؑ کی شہزادی، حضرت رقییہؑ کے شوہر تھے۔ آپ کے القاب، نائب امام حسینؑ، سفیر حسینؑ، اور غریب کوفہ (کوفہ کے مسافر) ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت انگریزی کیلنڈر کے مطابق 633 عیسوی کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔ قمری کیلنڈر کے اعداد و شمار کے مطابق آپ کی ولادت 12 ہجری ہے۔ آپ کی شہادت 680 عیسوی یعنی 9 ذوالحجہ 60 ہجری روزٍ عرفہ کو 48 سال کی عمر مبارک میں حالت مسافرت میں کوفہ کے دارالا عمارہ سے گراکر شہید کیا گیا، سر کو تن سے جدا کر، سر مبارک یزید پلید ملعون کو پیش کیا گیا اور آپؑ کے جسم اطہر کو کوفہ کے گلی کوچوں میں رسی باندھ کر کھینچا گیا۔
واقعہ شہادت سے کچھ مہینے قبل جب کوفہ کے لوگوں نے حسینؑ کو خطوط بھیج کر کوفہ آنے کی دعوت دی تو آپؑ نے مسلم ابن عقیلؑ کو تحفُص (صورت حال) لینے کے لیے کوفہ روانہ کیا۔ یہ وہی کوفہ ہے جہاں آپؑ کے خُسر کی ظاہری خلافت (37-40 ہجری) کا دارالحکومت رہا اور کوفہ کی مسجد میں ضربت لگی۔ بہر کیف، حضرت مسلمؑ کو وہاں پہنچ کر صورتحال مناسب لگی اور انھوں نے امام حسینؑ کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن جلد ہی منظر نامہ اور حالات تبدیل ہوئے، یزید پلید بن معاویہ لعنت اللہ نے عبیداللہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا کر بھیجا جس نے مسلمؑ کو شہید کروا دیا۔ آپ کی شہادت کی عبیداللہ ابن زیاد ملعون کی سیاست اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا اور کوفیوں کا باہم متحد نہ ہونا قرار دیا جاتا ہے۔ سن 60 ہجری میں کوفہ میں شیعوں کے دو تین گھروں سے زیادہ نہیں تھے۔
نائب امام حسینؑ و سفیر کوفہ کی تفصیلی جائزہ و تحریر کے لئے آپؑ کی بجانب کوفہ روانگی و شہادت، نعمان بن بشیر کی کوفہ میں موجودگی، ہوا خواہان بنی امیہ کا یزید کے پاس نعمان کے متعلق شکایتی خطوط لکھنا، نعمان بن بشیر کی معزولی، عبیداللہ ابن زیاد کی بجانب کوفہ روانگی و کوفہ میں اس ملعون کا ورود، جناب مسلمؑ کا مختارؑ کے گھر سے جناب ہانی رحہ کے گھر منتقلی، ابن زیاد کا مکر و حیلہ سے جناب مسلمؑ کے حالات معلوم کرنا، جناب ہانی کی وجاہت اور جلالت قدر، جناب طوعہ کی حالات، قاضی شریح کی شخصیت کا مطالعہ ضروری ہے۔ ایک مضمون میں سب کچھ لکھنا ممکن نہیں ہوتا ، کئی وجوہات ہوتی ہیں۔
حضرت مسلمؑ کی شہادت کوفہ میں ہوئی جہاں ایک اہم کردار سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ جب ابن زیاد کی رسیدگی کوفہ کی اطلاع ملی تو آپ خانہ مختار سے منتقل ہو کر ہانی ابن عروہ کے مکان میں چلے گئے۔ ابن زیاد نے معقل نامی غلام کے ذریعہ سے جناب مسلم کی قیام گاہ کا پتہ لگایا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ مسلم ہانی بن عروہ کے مکان میں ہیں تو ہانی کو بلوا بھیجا اور دریافت کیا کہ تم نے مسلم بن عقیل کی ذمہ لے رکھی ہے اور وہ تمھارے گھر میں ہیں۔ جناب ہانی نے تو پہلے انکار کیا لیکن جب معقل جاسوس سامنے لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ امیر ہم مسلم کو اپنے گھر بلا کر نہیں لائے وہ خود آگئے ہیں۔ ابن زیاد نے کہا کہ اچھا جو صورت بھی ہو تم مسلم کو ہمارے حوالے کر دو۔ جناب ہانی نے جواب دیا یہ بالکل نا ممکن ہے۔ یہ سن کر ابن زیاد نے حکم دیا کہ ہانی کو قید کر دیا جائے۔
ہانی قید کر دیئے گئے۔ ایک بار پھر ہانی سے کہا گیا کہ مسلم کو حاضر کر دو ورنہ تم قتل کر دیئے جاؤ گے۔ جناب ہانی نے فرمایا کہ میں ہر مصیبت کو برداشت کروں لیکن مہمان کو تیرے سپرد ہرگز نہیں کروں گا۔ مختصر یہ کہ جناب ہانی جن کی عمر 90 سال کی تھی، ان کو کھمبے میں بندھوا کر 500 کوڑے مارنے کا حکم دیا گیا۔ جناب ہانی بے ہوش ہوگئے۔ ان کے سر کاٹ کر تن مبارک کو دار پر لٹکا دیا گیا۔ (سید نجم الحسن، چودہ ستارے، صفحہ نمبر 232)
ایک کردار، جناب ہانی کا قارئین کرام کے عبرت کے لیے پیش کیا گیا وقت پڑنے پر اس کردار کو اپنا کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہوس جا سکتا ہے جنھوں نے اپنی جان قربان کر دی، ضعیفی میں اذیتیں برداشت کیں لیکن مہمان کو ظالم کے حوالے نہیں کیا۔ اب دوسرا کردار، طوعہ کا پسر جس نے ابن زیاد کو اپنے گھر مہمان و مسافر کی حرص و لالچ میں جاسوسی کی اور ابن زیاد کو خبر پہنچا دی کہ حضرت مسلمؑ طوعہ کے گھر آرام پذیر ہیں۔
حضرت مسلمؑ نے کسی طرح رات گزاری۔ صبح نمودار ہوتے ہی دشمن کا لشکر آپہنچا۔ لشکر کا سردار محمد بن اشعث تھا جو امام حسنؑ کی قاتلہ زوجہ، جعدہ بنت اشعث کا حقیقی بھائی تھا۔
حضرت مسلمؑ نے جب تین ہزار گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنی تو تلوار لے کر گھر سے باہر نکل پڑے اور دشمنوں کو تہ تیغ کر دیا۔ ابن اشعث نے اور فوج کا مطالبہ کیا۔ ابن زیاد نے کہالا بھیجا کہ ایک شخص کے لیے تین ہزار فوج کیسے ناکافی ہے۔ اس نے جواب دیا شاید تو نے یہ سمجھا ہے کہ کسی بقال یا جولاہے سے مقابلہ ہے۔
غرض یہ کہ جب مسلم پر کسی طرح قابو نہ پایا جا سکا تو ایک خس پوش گڑھے میں آپ کو گرایا گیا۔ گرفتار کر کے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ ابن زیاد ملعون نے حکم دیا کہ انھیں کوٹھے سے زمین پر گرا کر ان کا سر کاٹ لیا جائے۔ حضرت مسلمؑ نے چند وصیتیں کیں اور کوٹھے سے گرتے وقت "السلامُ علیکَ یا ابا عبداللہ" کہا اور اپنے بابا حضرت عقیلؑ اور خُسر حضرت علیؑ سے جا ملے۔
یزید پلید ابن معاویہ لعنت اللہ نے ابی طالب علیہ السلام کے چمن کے ایک اور پھول کو مسل دیا۔ لیکن اس پھول کی خوشبو کو انسانیت، اسلام اور قرآن کے پیغام عام ہونے سے نہ روک سکا۔